Sunday, 18 March 2018

Baitiyan Article by Zara Kanwal

Baitiyan Article by Zara Kanwal

                             " بیٹیاں "
مجھے بیٹیاں اچھی لگتی ہیں اور میں بیٹیوں کے نصیب سے نہیں ڈرتی ہوں کیونکہ اُنکا نصیب اُس رب نے لکھا جو ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا ہے.. پھر کیسے اُنکا نصیب برا ہوسکتا ہے نصیبوں میں تو بس آزمائش لکھی ہوتی ہے ہمارے رب کی طرف سے ۔
بیٹیوں کے دل نازک ہوتے ہیں لیکن اُن سے زیادہ مضبوط بھی کوئی نہیں ہوسکتا ہے.. قربانی دینے کا ظرف کسی کمزور میں ہوتا بھی نہیں ہے.. اپنی گڑیا کے ٹوٹ جانے پر ہی جو آنسو بہا دیتی تھی خود کے ٹوٹنے پر تو ایک آنسو بھی نہیں بہاتی ہیں کسی کے سامنے ۔  جب بیٹیوں پر غرور اور فخر کرکے اُن کے کمزور کندھوں پر عزت اور خوف کا بوجھ ڈالا جاسکتا ہے تو کیا اُن بیٹیوں پر مان اور یقین کا ہتھیار تھما کر اُنکے ساتھ نہیں کھڑا ہوا جا سکتا ہے ؟ 
ہم آج کے وقت میں اُنکو تعلیم دلوا کر اُن کو خاموش رہنے کا کہتے ہیں شعور دے کر ہر غلط بات کو بھی برداشت کرنے کا کہتے ہیں .. بیٹیوں کو تربیت اور تعلیم کے نام پر آذادی دینے کے لیے تیا ر ہیں لیکن صحیح اور غلط کا فرق بتانا بھول گئے ہیں شاید.. انکی غلطیوں پر اُنکو احساس نہیں دلاتے ہیں سزا دیتے ہیں ۔ کیا وہ انسان نہیں ہیں..؟  کیا اُن سے غلطی نہیں ہوسکتی ہے..؟  کیا معافی کا لفظ اُن کے لیے نہیں بنا ہے..؟  کیا اُنکو تکلیف نہیں ہوتی ہے اپنوں کی بے رخی سے اپنوں کی بے اعتباری سے..؟  کیا لڑکیوں کا کوئی مان کوئی فخر نہیں ہوتا ہے..؟  
"اللہ پاک نے یہ دنیا انسانوں کے رہنے کے لیے بنائی ہے.. فرشتوں کی کمی نہیں ہے اُنکے پاس اس دنیا میں انہوں نے فرشتوں کو رہنے کے لیے نہیں بھیجا ہے انہوں نے انسانوں کو بھیجا ہے جو خطاؤں کا پُتلا ہے لیکن اس لیے کہ وہ رحمان معاف کرنے والا ہر ایک کو ہر ایک کی غلطیوں کو ۔
بیٹیوں کو عزت اور محبت دے دی جائے تو وہ ہنس کر سب کچھ کرجائے گی ۔
احساس سے پُر یہ بیٹیاں بہت معصوم ہوتی ہیں.. ذرا سی" بات سے افسردہ ہوجاتی ہیں اپنوں کی خوشیوں کے لیے ہر قربانی دے دیتی ہیں..  اپنے نصیب کے کسی دکھ کے لیے خوفزدہ نہیں ہوتی ہیں وقت آنے پر ہر دُکھ اکیلے ہی جھیل لیتی ہیں پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ بیٹیاں نازک ہوتی ہیں. " 
ماں باپ جو بیٹیوں کے نصیب سے ڈرتے ہیں صحیح ہی ڈرتے ہیں..  لیکن کیوں ڈرتے ہیں..؟  اگر اللہ نے اُنکو آزمائش کے لیے چُن لیا ہے تو کیا وہ صبر نہیں کرسکتے ہیں؟ اُس آزمائش پر پورا اترنے کی کوشش نہیں کرسکتے ہیں اپنے رب کے لیے.. "جو الله آزمائش میں ڈال سکتا ہے اُسکے لیے آسانی کرنا مشکل ہے..؟ کیا دنیا کا خوف اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ہم اپنے الله سے ہی مدد مانگنا بھول جاتے ہیں..؟  اور آخر میں قصور صرف بیٹیوں کے لیے رہ جاتا ہے کیونکہ وہ بیٹی ہے اور وہ بوجھ بن جاتی ہے..
 نہیں بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتی ہیں ہم خود اُنہیں بوجھ سمجھنے لگ جاتے ہیں..   اور یہ نہیں سوچتے کہ اس میں انکا کیا قصور ہے بلکہ ہمیں تو اُنکے ساتھ اُنکے دکھ کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.. ماں باپ ایسا گھنا سایہ ہے جس کی چھاؤں تلے دنیا بھی کم پڑجائے اگر والدین اپنی اولاد کو اُس چھاؤں تلے پناہ دے تو دنیا کی ذرا تپش اُن تک نہیں پہنچ سکتی لیکن اگر ماں باپ ہی اپنی اولاد کو اُس سائے سے محروم کردیں تو اُنکی اولاد دنیا کی تپش سے جھلس جائے گی.. 


"الله کے فیصلے پر جو راضی ہو تو بیٹیاں ہوتی ہیں رحمت اُن کے لیے.. 
جو نہ ہو خوش الله کے فیصلے سے تو بیٹیاں ہوتی ہیں بوجھ اُن کے لیے.." 
                                               ازقلم 
 زارا کنول 

No comments:

Post a Comment