HERE YOU CAN SEARCH FOR THE NOVELS LINKS

Google play app

Get it on Google Play

Friday, 23 March 2018

Shukriya Pakistan Article by Reema Noor Rizwan

Shukriya Pakistan Article by Reema Noor Rizwan

،،،،،شکریہ پاکستان،،،،،،،،،
از ریمانوررضوان
************
 شائع شدہ ریشم ڈائجسٹ اکتوبر 2017
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 "میرا دل خون کے آنسوں روتا ہے جب کوئی میرے پاکستان کو برا کہتا ہے تو. پاکستان' پاک سر زمین کو اس وطن عزیر کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے بزرگوں نے اپنی قیمتی جانوں کا لاکھوں جانوں کا نذرانہ دیا ہے. لاکھوں جانیں قربان کرنے کے بعد یہ پاک سر زمین ہمیں حاصل ہوئی ہے اس آزاد وطن میں رہنے کا خواب قائد نے دیکھا تھا. رب نے خواب کی خوبصورت تعبیر دی. ہم نے اپنے ماں و باپ، بہن' بھائی، رشتہ داروں احباب کو کھو کر اس وطن کو پایا ہے. آزادی کی قدر و قیمت غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگ جانتے ہیں. ہم تو ہیں ہی سدا کے ناشکرے. اچھا کھانے اچھا پینے کے باوجود ضروریات زندگی بہترین ملنے کے باوجود ہمہ وقت شکوہ کناں رہتے ہیں. پاکستان نعمتِ خدا وندی ہے. رب تعالیٰ کی کرم نوازی ہے". ثمامہ ویڈیو کال پر حمنہ سے بات کر رہی تھی. حمنہ جب سے شادی ہو کر لندن گئی تھی، وہاں کی خوبصورتی لے گن گاتی رہتی تھی، ثمامہ نظر انداز کر جاتی تھی، آج وہ بھڑک اُٹھی تھی. "ثمامہ! میں بھی پاکستانی ہوں، شادی ہو کر یہاں آنے سے مجھے اپنے وطن سے محبت ختم نہیں ہوئی، بس یار باہر ممالک ترقی یافتہ ہیں، پاکستان ترقی نہیں کرسکا اب تک، میں برائی نہیں کر رہی سچ کہہ رہی ہوں، اس میں اتنا ہائیپر ہونے کی کیا ضرورت ہے. " حمنہ بھی خفگی سے بولی تھی "حمنہ! تو ہمہ وقت وہاں کے ہی گن گاتی رہتی ہے، پاکستان جو بھی ہے جیسا بھی ہے مجھے اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہے. یہ وطن ہمیں طشتری میں سجا نہیں ملا. اس پاک وطن کو پانے کے لیے ہمارے بزرگوں نے کروڑوں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش، کیا ہے، گھر' مال' عزت سب کچھ تیاگ دیا. آنے والی نسلوں کے لیے اپنا آپ فراموش کر ڈالا. ارضِ وطن کی خاطر قربان ہونے والے شہداء کے لئے ہم جتنا روئیں کبھی بھی ان کے لہو کا قرض نہیں چکا سکتے. حمنہ آزادی بہت بڑی انمول نعمت ہے. اپنے وطن عزیز کے سبز ہلالی پرچم کو دیکھنے سے من میں طمانیت اترتی ہے. قیام پاکستان کے وقت ہمارے بزرگوں کو کتنی اذیتیں اٹھانی پڑی تھیں، کتنی دقتوں و مشکلوں سے انہرنے معصوم نو مولود بچوں کے ساتھ آزادی کے سفر کا آغاز کیا. اپنے آباء و اجداد کے بنے ہوئے گھر زمین جائیداد سب صرف مسلم ممالک میں رہنے کی خاطر چھوڑ آئے آزادی کے حصول کے لیے ہمارے بزرگوں نے جتنی تکلیفیں سہی ہیں ہم اندازہ ہی نہیں کر سکتے. یہ کرب' تکلیف' اذیت صرف وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جن کے دل حب الوطنی کے جذبے سے سر شار ہوں. تم آج بھی گوگل سرچ کر لو، قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے جو مسلمان قافلے کی شکل میں ٹرین میں بیٹھ کر، کھڑے ہوکر لاہور پہنچنا چاہتے تھے. کیسے ظالم لوگوں نے بھری بھری ٹرین کاٹ لی، خون میں لت پت لاشیں، برہنہ عورتیں معصوم بچے. تعصب پسند ہندوئوں کے سینے میں دل نہیں پتھر تھے جو اتنی بے رحمی سے زندہ لوگوں کی گردنیں تن سے جدا کر ڈالی تھیں". ثمامہ کہتے کہتے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی. ماہ اگست آزادی کے ماہ کے شروع ہونے پر اس کی یہی کیفیت رہتی تھی. وہ لاکھوں قربان ہونے والے وطن عزیز کی بقا کی فکر کرنے والوں کے لیے لڑ جاتی تھی، یہ وطن یوں ہی تو نہیں مل گیا تھا جس میں وہ عیش سے رہ رہے تھے. 'ثمامہ! اپنے وطن کی محبت کے رنگ اتنے کچے نہیں ہوتے کہ دوسرے ملک میں رہنے سے وہ مانند پڑ جائے جائیں. وقتی طور پر اس ملک کی خبصورتی و ترقی ہمیں متاثر ضرور کرتی ہے لیکن اپنے دیس کی محبت کی بھینی بھینی مہک اس طرح چار سو بکھرتی ہے کہ انسان بے خود سا ہو کر اپنے ملک میں بیتے ہوئے لمحات کو یاد کرنے لگتا ہے، یہ یادیں ہی ہوتی ہیں کبھی یاد کرتے ہم مسکرا دیتے ہیں تو کبھی انکھیں نم کر جاتی ہیں، انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہی ماحول اس کی روح و دل کی طمانیت کا باعث ہوتا ہے، اپنے ماحول سے دور رہ کر انسان جی تو سکتا ہے، خوش نہیں رہ سکتا. خوشی تو من کے نہاں خانوں میں پنہاں ہوتی ہے سپنے ملک سے محبت کو ہم لاکھ اپنے من میں چھپا لیں لیکن یہ جو ملی نغمے ہیں نا یہ سن کر انسان مچل جاتا ہے،
 بے ساختہ گنگنانے لگتا ہے.
"شکریہ پاکستان پاکستان شکریہ

مسکرا پاکستان پاکستان مسکرا" میں اکثر یہ گانا گنگناتی رہتی ہوں. پاکستان میری پہچان ہے. پہچان کو فراموش کر جانا حماقت کے سوا کچھ نہیں ہر شخص چاہتا ہے اس کی پہچان و شناخت ہمیشہ ہی قائم رہے" اب کے حمنہ کی آنکھیں بھی چھلک پڑی تھیں
******************
ختم شد

No comments:

Post a Comment